جامعہ کےابتدائی حالات

جیسا کہ اوپر گذر چکا ہے کہ یہ مدرسہ ابتداء ً بانیٔ جامعہ کے گھر پر ہی نہایت بے سروسامانی کے عالم میں شروع کیا گیا، طلبہ کی تعداد بڑھنے پر لبِ سڑک واقع سملک کی مسجد میں منتقل کیا گیا۔

اُس وقت عسرت وتنگدستی کا یہ عالم تھا کہ طلبہ کے خوردو نوش کا کوئی معقول انتظام نہ تھا، گاؤں کے ہر گھر میں دو ہنڈیاں رکھ دی گئی تھیں:ایک چاول اور دوسری جوار کے لیے کہ گاؤں کی عورتیں صبح و شام جب اپنے گھر کے لیے چاول اور آٹا نکالیں تو ساتھ ہی اس ہانڈی میں بھی ایک آدھ مٹھی ڈال دیا کریں۔ وقفے وقفے سے خود بانیٔ مدرسہ حضرت مولانااحمدحسن بھام سملکیؒ اپنے ایک معاون کے ساتھ جمع شدہ چاول وآٹا اپنے کندھے پر اٹھالاتے اور مہمانانِ رسول کی میزبانی فرماتے۔

مولانا احمد برزگ رحمہ اللہ(اول)

بانی ٔ مدرسہ کے وصال کے بعد تقریباً ڈھائی سال تک منصب ِاہتمام خالی رہا، منتظمہ کمیٹی نے انتظام سنبھالا،اس کے بعد مدرسہ کی ذمہ داری سنبھالنے کیلئے ایک مدبّر، فعال اور جواں مرد شخصیت کی ضرورت ہوئی، اس عہدہ کے لیے مخلصین مدرسہ کی نظر حضرت مولانا احمد بزرگ ؒپر مرکوز ہوئی ، جو اس عہدہ کیلئے انتہائی موزوں و مناسب شخصیت تھی، مولانا احمد بزرگ ؒ بانیٔ مدرسہ کے ہم وطن، ہم نام اور ہم نوالہ و ہم پیالہ رفیقِ درس تھے،مگر وہ اس وقت رنگون (برما) میں افتاء کی خدمات انجام دے رہے تھے، بعض احباب نے باصرار آپ کو ’’رنگون‘‘ سے’’ سملک‘‘ بلایا، اور مدرسہ کا اہتمام سپرد کیا۔

بس کیا تھا! مدرسہ کے پژمردہ جسم میں پھر تازہ دم خون دوڑنے لگا،چنانچہ مولانااحمد بزرگؒ اوّل (متوفی ۱۳۷۱ھ ) نے مدرسہ کی تعمیر و ترقی میں اپنا سب کچھ لگادیا۔آپ ہی نے اپنے دورِ اہتمام( ۱۳۴۶ھ) میں وقت کے نامور علما و فقہا و محدثین کو مدعو کرنے کی کوشش شروع کی، امام العصر حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ کو ڈابھیل آنے کی دعوت دی گئی جس کو حضرت نے قبول فرمایا،چنانچہ امام العصر کی قیادت میں علمائے دیوبندکا ایک وفداپنے شاگردوں سمیت مدرسہ تعلیم الدین سملک پہونچا۔ ان اکابر علما کی آمد سے پورا خطّہ علم کی روشنی سے جگمگا اٹھا ،’’ مدرسہ تعلیم الدین سملک‘‘ جو ایک علاقائی مدرسہ کہلاتا تھااب جامعہ میں تبدیل ہوکر ’’جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل -سملک‘‘ کہلانے لگا،اس طرح پورے ہندوستان میں جامعہ کی شہرت ہونے لگی۔

اکابر علمائے دیوبند کی جامعہ آمد کے بعد طلبہ کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہوا،نتیجتاً جامعہ کے مصارف بھی بڑھ گئے، جن کو یہاں کے متعدد نامور متمول خاندانوں نے پورا کیا ،پھرانھیں اخراجات کی تکمیل کے لیےآپ بھی افریقہ عازمِ سفر ہوئے، اور دو سال افریقہ میں قیام کے بعدکامیاب و کامران وطن واپس ہوئے۔ آپ کا دورِ اہتمام جامعہ کی نشأۃِ ثانیہ کا دور رہا ، آپ کے اہتمام کی مدت ۲۱؍ سال ۷؍ ماہ ۱۲؍ دن ہیں۔(مزید تفصیل تاریخ جامعہ قدیم اور تاریخ جامعہ جدید دیکھیے)

مسلک و مشرب

جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل کا مسلک عقائد میں اہل سنت وجماعت، فقہ میںحنفی اور مشرب دیوبند کے مطابق ہے ۔جامعہ کا طریقۂ فکر وعمل حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ،امام ربانی مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے نہج پر ہے ۔

Urdu