دینی مدارس کی تاریخ
اسلام کی تاریخ جتنی قدیم ہے ، اتنی ہی قدیم دینی مدارس کی تاریخ بھی ہے، ہجرت سے پہلے مکۂ مکرمہ میں آپ ﷺ نے ’’دارارقم‘‘ کو تعلیم و ارشاد کا مرکز بنایا ، ہجرتِ مدینہ کے بعد مدینہ میں مسجدِ نبوی کی تعمیر کے ساتھ ساتھ آپﷺنے ایک چبوترہ بھی تعمیر فرمایا،جس پر معمولی سا چھپر بنا ہوا تھا، جہاں آپ ﷺلوگوں کو قرآن پڑھاتے اور دین کی تعلیم دیتے، یہ طلبا کی پہلی اقامتی درس گاہ تھی ، جہاں دور دراز سے مسلمان آتے اور دینِ اسلام سیکھتے تھے، اسی کو’’ صفہ ‘‘کہاجاتا ہے۔
دینی مدارس ہندوستان میں
ہندوستان میں جب سلطنتِ مغلیہ کا چراغ گل ہوگیا تو اُس وقت کے روشن ضمیر علما نے اِس دم توڑتی ہوئی انسانیت کیلئے نورِ فراست سے کام لے کر چپہ چپہ میں مدارس کا جال بچھا دیا،ان مدارس نے عیسائی مبلغین اور آریہ سماجیوں کے اسلام کے خلاف علانیہ حملوں کا بڑی بے جگری سے مقابلہ کیا۔ ان بزرگوں کے اخلاص و للہیت کاہی اثر ہے کہ آج پورے برِّ صغیر میں بلکہ اس سے باہر بھی دینی مدارس کاایک وسیع جال پھیلاہواہے،نیزیہ ایک نا قابلِ انکار حقیقت ہے کہ جاں گسل حالات کے باوجودآج اس ملک میں اس شان وبان کے ساتھ اسلام کا باقی رہنا دینی مدارس ہی کی دین ہے۔
تاسیسِ مدرسہ تعلیم الدین ڈابھیل-سملک
جامعہ ہذا بھی بزرگانِ دین کی قائم کردہ اسی مبارک سلسلے کی ایک کڑی ہے، چنانچہ ۱۳۲۶ھ شعبان مطابق ۱۹۰۸ ءستمبر کے مہینے میں صوبۂ گجرات کے ایک گمنام گاؤں سملک کی سرزمین پر بانیٔ جامعہ حضرت مولانااحمد حسن بھام سملکی ؒ (متوفی: ۱۳۳۶ھ ) نے اپنے استاذِ محترم مولانااحمد میاں صوفی لاجپوری ؒ (متوفی: ۱۳۲۷ھ)کے مبارک ہاتھوں ’’تعلیم الدین‘‘ کے نام سے ایک مدرسے کا افتتاح فرمایا۔
تاسیس کا پس منظر
گجرات کی اسلامی سلطنت کے زوال کے بعد دھیرے دھیرےعلمائے ربّانی اوراولیا و صلحا بھی ایک ایک کرکے رخصت ہونا شروع ہوگئے، جس کا اثر یہ ہوا کہ ہر طرف جہالت کی بھیانک وخوفناک تاریکی چھانے لگی، احمدآباد جیسا شہر جو علم و عمل کا مرکز اور اسلامی تہذیب وتمدّن کاگہوارہ تھا، ایسا زوال سے دوچار ہوا کہ اس کی عظمت رفتہ دوبارہ بحال نہیں ہوسکی،نتیجتاً عوام میں شرک و بدعات نے گھر کرنا شروع کیا ، جہالت عام ہوتی چلی گئی ،اسلامی عقائد ، اعمال و افکار مٹنا شروع ہوگئے، بے دینی کے ان اثرات سے مسلمانوں کو بچانے کے لیے قادرِ مطلق نے سرزمینِ گجرات میں ہی کچھ ایسے علما پیدا فرمائے،جنھوں نے اس بے دینی اور جہالت کو دور کرنے کیلئے بڑی بے سروسامانی میں محض اللہ تعالی پر توکّل کرتے ہوئے مختلف محاذ پر کام کرنا شروع کیا۔
ان ہی خداترس علما میں سے ایک حضرت مولانا احمد حسن بھام سملکیؒ بھی ہیں۔مولانا مدرسہ امینیہ دہلی سے سندِ فضیلت حاصل کرکے وطن تشریف لائے اور سورت میں واقع ’’تُراوا مسجد‘‘ کی امامت وتدریس کی خدمت انجام دینے لگے،اس عرصے میں اپنے علاقے ڈابھیل سملک کی بے دینی، بدعات اور رسوم و خرافات دیکھ دیکھ کر ان کا دل کڑھتا رہا، ملّت کے اسی دور و کرب کو لیے بے چین و بے قرار رہتے۔بالآخر مسجد کی امامت و تدریس سے مستعفی ہوئے، اور وطن(سملک ) جاکر توکلًا علی اللہ اپنے ہی گھر میں’’تعلیم الدین‘‘ کے نام سے ایک مدرسے کی بنیاد رکھی،شبانہ روز محنتوں کے بعد یہ مدرسہ رفتہ رفتہ ترقّی کرنے لگا، طلبہ کے اضافہ کے ساتھ ساتھ مدرسے کے شعبہ جات بھی بڑھنے لگے۔
یقیناً یہ بانیٔ جامعہ کی محنت و اخلاص کا اثر ہے کہ جامعہ نے اتنے کم عرصے میں اس قدرمقبولیت پائی، چنانچہ اپنے ابتدائی دور میںبویا گیا ایک معمولی سا پودا کچھ ہی عرصے میں تناور درخت کی شکل اختیار کرکے برگ و بار لانے لگا، آج یہ مدرسہ ایک بین الاقوامی ادارہ اور علومِ اسلامیہ کی ایک عظیم درسگاہ کہلاتا ہے ، جس کی خدمات کے نقوش ملک وبیرونِ ملک جابجا پھیلے ہوئے ہیں، اور جس کے فضلا کی جہدِ مسلسل اور عملِ پیہم نے ایک قابلِ قدر ولائقِ فخر تاریخ رقم کر رکھی ہے، خدائے بزرگ و برترکا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ آج بھی یہ ادارہ اکابر کے نہج پر قائم رہتے ہوئے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔