بانیٔ جامعہ (مولانا احمدحسن بھا م ؒ )کے متعلق
حضرت مولانا احمد حسن بھا م ؒ کا تعلق قصبہ سملک تھا،آپ ایک متدیّن، خوش اخلاق، اولو العزم، وسیع القلب، صاحبِ علم وفضل، پیکرِ اخلاص اور اعلیٰ پیمانے کے منتظم تھے،آپ کا شمار اُن عبقری اور نابغۂ روزگار شخصیات میں ہوتا تھا، جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان کی کم عمری میں ہی خوب کام لیے۔ آپ بے شمار خوبیوں و صفات سے متصف تھے، خصوصاً قوم و ملّت کا درد و غم اور اخلاص و للہیت آپ کی قبولیت کا جزء ثانی بن چکا تھا۔
آپ کی ولادت صوبۂ گجرات، ضلع نوساری کے ایک گمنام دیہات ’’سملک‘‘ میں تقریباً ۱۲۹۶ ھ مطابق ۱۸۷۸ ء کو ہوئی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم کا آغاز اپنے گاؤں کے مکتب میں حضرت مولانا امیر الدین صاحب سملکی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کیا، پھر فارسی و ابتدائی عربی کی تعلیم کے لیے’’ مدرسہ انجمنِ اسلام کٹھور‘‘حضرت مولانا عبد الحق ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔متوسطات کی تعلیم کے لیے’’ مدرسہ اسلامیہ لاجپور‘‘ میں حضرت مولانا صوفی احمد میاں لاجپوری رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے دہلی کا سفر اختیار فرمایا اور’’ مدرسہ حسین بخش‘‘ میں داخل ہوئے، ایک سال یہاں پڑھنے کے بعد حضرت اقدس تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ’’ مدرسہ جامع العلوم ‘ ‘کانپور میں دو سال قیام فرمایا، پھر طاعون کے سبب وہاں سے واپس دہلی تشریف لائے اور’’ مدرسہ عبد الرب دہلی‘‘ میں حضرت مولانا عبد العلی صاحب میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ (تلمیذ حضرت اقدس نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ) کے پاس علومِ عالیہ کی تحصیل فرمائی، آخر کار دہلی ہی کے’’ مدرسہ امینیہ ‘‘سے حضرت مولانا امین الدین صاحب اورنگ آبادی اور حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیھما جیسے نامور اور جیّد علمائے وقت کے ہاتھوں چھبیس(۲۶)سال کی عمر میں سندِ فراغت حاصل کی۔
فراغت کے بعد کچھ دنوں تک سورت شہر کے’’ تُراوا مدرسہ‘‘ میں ’’مدرّسِ اول رہے،مگر کچھ ہی عرصے بعد اپنے گاؤںاور علاقے کی بے دینی اور بدعات و خرافات کے خاتمے کے عزم کے ساتھ وطن تشریف لائے اور اپنے گھر سے ہی بچوں کو زیورِ علم سے آراستہ کرنے کا فیصلہ کیا،جذبۂ اخلاص اور سچی کڑھن کا ہی یہ اثر تھا کہ طلبہ کی تعداد بڑھنے لگی،اب سلسلۂ تعلیم سملک کی مسجد میں منتقل فرما کر شعبان۱۳۲۶ھ کو اپنے استاد حضرت مولانا صوفی احمد میاں لاجپوری رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ بابرکت سے ’’تعلیم الدین‘‘ نام تجویز کرکے مدرسہ کا باقاعدہ افتتاح فرمایا۔ اُس وقت آپ کی عمر اکتیس(۳۱) سال تھی۔
بانیٔ مدرسہ کی شبانہ روز محنتوں کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ طلبہ کی کثرت کے ساتھ مدرّسین و ملازمین میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ دو سال کے اندر ہی (۱۳۲۸ ھ)مدرسے کے لیے ’’سملک مسجد‘‘ ناکافی محسوس ہونے لگی؛چنانچہ بانیٔ مدرسہ نے نوساری کے نائب صوبے دار مشہور مجاہدِ آزادی حضرت مولانامحمدعلی جوہر ؒ (متوفی: ۱۹۳۱ ء)کے ساتھ مل کر بڑی جد وجہد کے بعد ڈابھیل گاؤں کے مغربی جانب عیدگاہ کے بالکل سامنے زمین کا ایک قطعہ خریدلیا اور تعمیرِ مسجد کے بعد مدرسہ اُس جگہ منتقل کردیا۔
درسگاہ اور دارالاقامہ نیز دیگر ضروریات کی تکمیل کے لیے خطیر سرمایے کی ضرورت تھی،اسی مقصد سے ماہِ ربیع الاول ۱۳۳۴ھ مطابق جنوری۱۹۱۶ءکو جنگِ عظیم اول کے درمیان ہی افریقہ کا سفر اختیار فرمایا، جہاں آپ کے اعزا و اقارب کے علاوہ اہلِ گجرات کی ایک بڑی تعداد پہلے ہی سے مقیم تھی۔ افریقہ پہنچ کر بھی آپ نے متعدد دینی خدمات انجام دیں: فرینخین نامی شہر میں مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا، مسلمانوں کی آپسی رنجشوں کو دور کرکے اخوت و بھائی چارہ قائم فرمایا، مدرسے کی آمدنی کیلئے ڈابھیل کے قرب و جوار کے افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی، جو مدرسہ کے لیے مفید و معاون ثابت ہوئی۔مولانا بھام ایک تحریکی مزاج کی حامل ، فعال شخصیت تھی،چنانچہ موزمبق کی راجدھانی ’’مپوٹو‘‘ میں بھی ایک مدرسے کی بنیاد ڈالی، اور پھر وہاں کے سارے کاموں سے فارغ ہوکر واپسی کا قصد فرماہی رہے تھے کہ وہاں پھیلنے والے ہلاکت خیز طاعون کی زد میں آکر بیمار ہوئے ، بالآخر اسی وبائی مرض سے ۴۲ سال کی عمر میں وفات پاکر مقامِ شہادت سے سرفراز ہوئے إنا للہ و إنا الیه راجعون ۔آپ کی تدفین برامفنٹین (جوہانس برگ، جنوبی افریقہ) میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ آپ کی قبرکو جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری بناوے۔ تمام فرزندانِ جامعہ اور جمیعِ امت کی جانب سے بہتر سے بہتر بدلہ عطا فرمائے، آپ کے لگائے ہوئے چمن کی آبیاری فرمائے اور ہر قسم کی فتنہ سامانیوں سے اس کی حفاظت فرمائے۔اٰمین ،آپ کا مدتِ اہتمام۱۰؍ سال ۵؍ ماہ ۱۰؍ دن رہا۔