تحریکِ آزادی میں جامعہ کا کردار

ڈانڈی مارچ تحریکِ آزادیٔ ہند کا اہم واقعہ ہے۔ڈانڈی مارچ کو ہی ہندوستان کی جنگ آزادی میں ’’نمک ستیہ گرہ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔۱۲؍ مارچ ۱۹۳۰ھ کو گاندھی جی نے گجرات کے ایک شہر نوساری کے ساحلی گاؤں ڈانڈی تک طویل پیدل مارچ کیا۔ یہ مارچ برطانوی حکومت کی طرف سے عائد ’’نمک ٹیکس‘‘ کی مخالفت میں تھا، اس احتجاج کو برطانوی حکومت کے خلاف وسیع پیمانے کی سِوِل نافرمانی تصور کیا جاتا ہے۔ ہندوستانیوں کی جانب سے اٹھایا گیا یہ قدم برطانوی سامراج کے خلاف بہت بڑا چیلنج تھا۔

ڈانڈی کا راستہ ڈابھیل کے قریب گاؤں دھامن سے ہوکر گذرتا تھا ، گاندھی جی کی گاؤں دھامن آنے کی خبر سن کر جامعہ کے شیخ الحدیث حضرت مولانا انور شاہ کشمیریؒ کے حکم سے مولانا حفظ الرحمٰن سیوہارویؒ اورمفتی عتیق الرحمٰن عثما نیؒ نےوہاں جا کر گاندھی جی سے ملاقات کی،گاندھی جی نے ان علما سے مل کر بہت خوشی کا اظہار کیا ، اور یہ دریافت کیا کہ میں نے سنا کہ پیغمبرِ اسلام نے فرمایا:’’پانی ، نمک اور گھاس پر ڈیوٹی نہیں،‘‘ ان علما نے اس کی تصدیق کی۔یہ سن کر گاندھی جی بہت خوش ہوئے اور اس بات کو تحریرمیں دینے کی خواہش ظاہر کی۔

جامعہ کے کئی اساتذہ ڈانڈی مارچ میں گاندھی جی کے ساتھ نمک بنانے میں شریک ہوئے۔یہ تفصیل گجرات حکومت کے ریکارڈ میں موجود ہے،اسی طرح ’’ بارڈولی ستیہ گرہ‘‘ میں بھی اساتذۂ جامعہ نے حصہ لیا۔

اسی زمانہ میں دارالافتا جامعہ ڈابھیل سے برطانوی حکومت کے خلاف مفتی عتیق الرحمٰن صاحب عثمانیؒ نے ایک فتویٰ جاری کیا تھا،جس میں ٹیکس کی عدمِ ادائیگی کی وجہ سے نیلام کی جانے والی جائیدادوں کو خریدنا ظلم کی کھلی حمایت قرار دےکر حرام اور ناجائز قراردیا۔اس فتویٰ سے انگریزوں کے ہوش اڑگئے ، چنانچی اس فتویٰ کی اشاعت کرنے والے پریس کو ضبط کرلیا گیا۔

Urdu